۵ آذر ۱۴۰۳ |۲۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 25, 2024
رهبر معظم انقلاب

حوزہ/ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بانی انقلاب اسلامی امام خمینی (رح) کی 32 ویں برسی کے موقع پر ٹیلی ویژن سے اپنے براہ راست خطاب میں فرمایا کہ آج پورا ایران امام خمینی (رح) جیسی عظیم شخصیت کی یاد میں سوگوار و عزادار ہے۔ آپ نے فرمایا کہ امام خمینی (رح) کا ارادہ مضبوط اور مستحکم تھا اور خرد مند اور دور اندیش تھے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،رہبر انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی برسی کی مناسبت سے ٹیلی ویژن سے براہ راست نشر ہونے والی اپنی تقریر میں کہا: اسلامی جمہوریہ ایران کی پرشکوہ بقا کا راز یہ دو الفاظ ہیں: "جمہوری" اور "اسلامی"۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا عظیم کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے اسلامی جمہوریہ کے تصور اور نظرئے کو پیش کیا اور اسے عملی شکل عطا کی۔ اس نظریے کے نفاذ میں ان کا اصل سہارا اسلام اور عوام کے سلسلے میں ان کی عمیق معرفت تھی۔

اس تقریر میں آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے امام خمینی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ کو ان کی سب سے اہم جدت طرازی قرار دیا۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ پچھلی ایک دو صدیوں میں سامنے آنے والے انقلابی اور دیگر نظاموں کے درمیان ایسا کوئي بھی نظام نہیں ہے جس کے زوال کی اتنی پیشین گوئیاں کی گئی ہوں جتنی ایران کے اسلامی جمہوری نظام کے زوال کے بارے میں کی گئیں۔ آپ نے فرمایا: انقلاب کے پہلے دن سے اس عظیم تحریک کو تسلیم اور برداشت نہ کر پانے والے بدخواہوں کا ملک کے اندر اور باہر یہی کہنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ دو مہینے، چھے مہینے یا ایک سال سے زیادہ باقی نہیں رہے گی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے مزید کہا کہ اس طرح کی ہرزہ سرائی امام خمینی کے عزم محکم اور استوار ارادے کے ذریعے اور مقدس دفاع میں ایرانی قوم کی فتح کے سبب، زمیں بوس ہو گئی لیکن امام خمینی کی وفات کے بعد ان میں پھر رمق پڑ گئی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ آخرکار ایک آدھ سال پہلے ہی امریکیوں نے یہی باتیں پھر کہیں اور امریکہ کے ایک اعلی عہدیدار نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ اپنی چالیسویں سالگرہ نہیں دیکھ پائے گی۔ مجھے یاد نہیں آتا کہ کسی دوسرے نظام میں، اس کے زوال اور اس کا شیرازہ بکھرنے کے بارے میں اتنی زیادہ پیشن گوئياں کی گئي ہوں۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی کے ساتھ مزید فرمایا: "لیکن بحمد اللہ امام خمینی کے انقلاب اور نظام کا نہ صرف یہ کہ شیرازہ نہیں بکھرا اور اس کی پیشرفت نہیں رکی بلکہ روز بروز زیادہ طاقتور ہوتا گيا، اس نے گھٹنے نہیں ٹیکے، پسپائي اختیار نہیں کی اور روز بروز اپنی خود مختاری کو مزید مستحکم بنایا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی اس تقریر میں یہ سوال پیش کرتے ہوئے کہ اس نظام کی بقا کا راز کیا ہے؟ کہا کہ اسلامیت اور جمہوریت، اسلامی انقلاب کی بقا اور اس کے تحفظ کے دو اصلی عناصر ہیں اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا عظیم کارنامہ، شرق و غرب کے مختلف سیاسی نظریات کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ کے حکومتی نظریے کی تخلیق ہے۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اس کے بعد نظام کی جمہوریت اور اسلامیت کے بنیادی نظریات کی تشریح کی اور تاریخ اسلام سے کچھ مثالیں پیش کیں اور کہا کہ اسلامی جمہوریہ، مغربی افکار سے مستعار کوئي نظریہ نہیں ہے بلکہ یہ امام خمینی کی گہری معرفت اور ان کی مذہبی نو اندیشی سے حاصل شدہ ایک جدید نظریہ ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ وہ اسلام، جس کے امام خمینی قائل ہیں، سامراج مخالف ہے، امریکا مخالف ہے، ملک کے داخلی امور میں اغیار کی مداخلت کا مخالف ہے، دشمن کے مقابلے میں گھٹنے ٹیکنے کا مخالف ہے۔ وہ اسلام، جس کے امام خمینی قائل ہیں، بدعنوانی کے خلاف ہے اور یہ چیزیں جو بعض شعبوں میں بدعنوانی کی موجودگي کا سبب بنتی ہیں، یقینی طور پر اسلام مخالف ہیں۔

آپ نے فرمایا کہ اسلامی حکومت، وہ حکومت ہے جو بدعنوانی سے مقابلہ کرے۔ اسلام، محروموں کا حامی ہے، طبقاتی فاصلے کا مخالف ہے۔

آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ معاشی اور اقتصادی مشکلات کا حل، انتخابات میں شرکت اور صحیح امیدوار کا انتخاب ہے۔ آپ نے لوگوں کو الیکشن میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ عوام کے سبھی طبقے خود بھی انتخابات میں شرکت کرنے اور اسی طرح دوسروں کو الیکشن میں حصہ لینے کی دعوت دینے کو اپنی ذمہ داری سمجھیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس عمل کو قرآن مجید کی اس آيت مبارکہ کا مصداق قرار دیا: "و تواصوا بالحق" (اور لوگ ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہے)۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امیدوار کے انتخاب میں بہت زیادہ غور کرنے اور امیدواروں کی کارکردگي پر توجہ دینے کی ضرورت پر تاکید کی اور کہا: صرف وعدوں اور باتوں پر اکتفا نہیں کی جا سکتی، جیسا کہ ایٹمی مذاکرات کے مسئلے میں بھی، جو اس وقت جاری ہیں، صرف باتوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اور ہم نے عہدیداروں سے ہمیشہ کہا ہے کہ بات، عمل سے بنتی ہے، باتوں اور وعدوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر میں الیکشن کے امیدواروں کو نصیحت کی کہ وہ ایسا کوئي وعدہ نہ کریں جسے پورا نہ کر سکتے ہوں۔ انھوں نے امیدواروں سے ایک اہم درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ہر امیدوار اپنے آپ کو سماجی انصاف کے قیام اور غریب اور امیر کے درمیان موجود فاصلے کو کم کرنے کا پابند سمجھے۔

آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسی طرح اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ ملک کے اقتصادیات کی نجات کا راستہ، داخلی پیداوار اور ملکی پروڈکشن کو مضبوط بنانا ہے، فرمایا: امیدواروں کو اس بات کا عزم کر لینا چاہیے کہ وہ بدعنوانی سے مقابلہ کریں گے، ملکی پروڈکشن کو مضبوط بنائيں گے، اسمگلنگ اور بے لگام درآمدات پر روک لگائیں گے۔ آج وہ کھل کر اس بات کا وعدہ کریں تاکہ اگر جیتنے کے بعد وہ اپنے وعدے پر عمل نہ کریں تو نگراں ادارے ان سے سوال کر سکیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے آخر میں، امیدواروں کی اہلیت کی توثیق کے بارے میں ایک اہم نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اہلیت کی توثیق نہ ہونے کے معاملے میں بعض افراد پر ظلم ہوا، ان کے بارے میں یا ان کے اہل خانہ کے بارے میں کچھ ایسی باتیں کہی گئيں، جن کا حقیقت سے کوئي تعلق نہیں ہے۔ کچھ قابل احترام اور پاکيزہ گھرانوں کو اس طرح کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ غلط رپورٹیں تھیں اور بعد میں پوری طرح سے عیاں ہو گيا کہ وہ رپورٹیں غلط تھیں لیکن بد قسمتی سے ان باتوں کو سوشل میڈیا پر پھیلا دیا گيا۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر کوئی کنٹرو نہیں ہے ہے، اس کی وجہ یہی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ لوگوں کی عزت کی حفاظت سب سے بڑی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ اداروں سے میری درخواست ہے کہ وہ اس کی تلافی کریں۔ کسی کے گھرانے یا بچے کے بارے میں کچھ باتیں کہی گئيں اور بعد میں پتہ چلا کہ وہ غلط تھیں، اس کی تلافی کی جائے اور حیثیت عرفی بحال جائے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .